نیا دور اور مُلا نصرالدین

پتا نہیں کیا بات ہے، سردی کا اثر ہے یا موسم کی یہ رُت دل کو خوشگوار محسوس ہونے لگی ہے۔۔۔۔ آج انٹرنیٹ کی دنیا پر چلتے چلتے ایک انڈیا کا پُرانا ڈرامہ مُلا نصرالدین پر نظر پڑ گئی، کیا چالاک ہوشیار شخص تھا اور کیسے اُس زمانے کی افسر شاہی اور شاہ کے مصاحب رشوت خور تھے اور کیسے کیسے لالچی سُود خور اور دیگر قسم کے لوگ اُس زمانے میں بھی پائے جاتے تھے۔۔۔۔ میں بعد میں سوچتا رہا کہ یہ سن 2020 کچھ پہلے سالوں سے زیادہ مختلف تو نہیں ہے۔ اس میں بھی اُونٹوں کی جگہ لینڈ کروزروں نے لے لی ہے، اور گدھوں کی جگہ ہونڈا سی ڈی 70 نے لے لی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ وہی ہیں بس مٹی کے گھروں کی جگہ لینٹر والے گھروں نے لے لی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بڑی بڑی سوچیں، ذہن کی چالوں لیکن ان چالوں کا مُحرک وہی ہے، وہی لالچ، وہی بے غیرتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دوسری طرف مُلا نصرالدین جیسے دل کے اچھے لوگ بھی آج پائے جاتے ہیں جو زمانہ شناس تو ہوتے ہی ہیں لیکن دل کا اچھا ہونے کی وجہ سے دوسرے کے دُکھ کو کم کرنے یا مٹانے کے لیے ہچکچاتے نہیں۔۔۔ وہ بھی یہی سوچتے ہیں کہ دنیا چاہے کتنی ہی ایڈوانس ہو جائے، کتنی ہی پُرکشش ہو جائے، رہے گی وہی لالچ سے بھری، چھوٹی چھوٹی خواہشات سے بھری۔۔۔۔۔۔ کیونکہ انسان چاہے اُڑنے والی گاڑیاں کیوں نا بنا لے۔ لیکن آخر میں اس دنیا میں جب تک انسان موجود ہے تو انسانی خصلتیں کیسے ختم ہو سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلیے بھیا بھاشن ختم ہوا۔۔۔۔۔۔ پھر ملیں گے۔

سوچوں کی نگری

آج تین سال بعد نا جانے کیوں رات کے اس پہر، ٹھنڈ سے بھوپور جنوری میں کچھ کہنے لکھنے دل سے نکال دینے کا بہت دل کیا۔۔۔۔۔۔ یہ بات نہیں کہ میں انٹرنیٹ سے دور تھا بلکہ دیکھا جائے تو میں نے گزشتہ تین سالوں میں انٹرنیٹ پر ہی کافی وقت گزارا۔۔۔۔ یہ وجہ نہیں کہ میرے پاس دیگر کام کاج نہیں، ایک عدد سرکاری نوکری بھی ہے، ایک عدد بیوی بھی ہے۔۔۔۔ جس کے ناز نخروں میں دن گزر جاتا ہے اور صبح سویرے وہی جاب گھر جاب اور گھر والی روٹین میں تین سال گزار دیے ہیں۔ اب آج بہت شدت سے دل کا غبار کہہ لو، دل کی باتیں کہہ لو، نکالنے کا بہت من کیا۔۔۔ یوں لگا کہ بس الٹی کر دوں، چیخوں، میرے اندر ایسی کیا کشمکش جاری ہے؟؟؟ مجھے کیا چیز چین نہیں لینے دے رہی، کیا یہ ایک چیز ہے یا کئی چیزوں کا مجموعہ ہے، یا کئی سالوں کی جمع ہوئی فرسٹریشن ہے، یا پھر کیا یہ ایک ہی فرسٹریشن ہے یا کئی چھوٹی چھوٹی فرسٹریشنز ہیں۔۔۔۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس فرسٹریشن کو کیسے پن پوائنٹ کروں۔۔۔۔۔۔ گھر کے کاموں کا بوجھ ہے، ملکی حالات ہیں، غمِ روزگار ہے، مستقبل کی سوچ ہے، کہ کیا ہے؟؟؟  مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنا زیادہ گھماؤ میں پھنستا ہوں اتنا زیادہ گھبرا کر سوچیں کی تہہ میں اترنا مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ سوچیں بھی ایسی کہ اللہ کی پناہ، اتنی گہری اندھیری دنیا، جن میں گھسنے کے لیے بھی مجھے کسی ٹارچ یا کسی چیز کی ضرورت ہے، وہ ٹارچ وہ روشنی وہ چراغ مجھے اللہ  کی طرف سے ہی ملنے کی امید ہے۔۔۔ لیکن کہانی میں ٹوئسٹ یہ ہے کہ جناب اللہ کی حقانیت، اللہ کی ذات کے متعلق بھی میں وسوسوں سوالا ت کے پیچ و خم میں گِھر جاتا ہوں۔۔۔۔۔ چار سال بعد خیال آیا کہ یار یہ کونا بھی خالی پڑا ہے، بیگم کو بھی بتایا کہ کوئی ریڈر تو ہے نہیں، تُم ہی اپنے میاں صاحب کی ہانکیں پڑھو اور واہ واہ یا توبہ توبہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باقی دیکھتے ہیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

آپ وقت کدھر صرف کرتے ہیں؟

آج کل جب ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم اپنا وقت زیادہ تر ایسے کاموں میں صرف کر رہے ہوتے ہیں، جو ہماری زندگی میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے، میں ان کاموں کی بات کر رہا ہوں جن کی اہمیت آپ کی سوچ نے یا تو خود گھڑ لی ہے یا آپ نا چاہتے ہوئے بھی انہیں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، چونکہ آپ کی ایک

عادت بن چکی ہے۔۔۔ اس بات کی مزید وضاحت ایک مثال سے دی جا سکتی ہے۔ آپ ایک سٹوڈنٹ ہیں، آپ کے امتحانات میں کوئی دو مہینہ کا عرصہ باقی ہے، بر خلاف اس کے کہ آپ اپنا تمام وقت ان امتحان کی بہتر تیاری میں گزارتے، آپ دیگر لغویات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، تیاری سے مُراد ہرگز نہیں کہ بس ایک کتاب ہو اور آپ سر جھکائے پڑھتے جا رہے ہیں، تیاری سے مُراد یہ کہ آپ دیگر لوگوں سے میل ملاپ کریں جو کہ اچھے سٹوڈنٹ گردانے جاتے ہوں، ان کی عادات دیکھیں، انٹرنیٹ پر ریسرچ کریں، یوٹیوب یا بلاگز دیکھیں جو آپ کو موٹیویٹ کریں یا پھر اس مخصوص امتحان کے لیے آپ کی مدد کریں۔ ہم اس سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بس ایک بات پر دھیان دیتے ہیں کہ کاش ہم پاس ہو جائیں، کاش کا لفظ ہمیں لے دے کر بیٹھ گیا ہے۔۔۔۔ اس بات کی جانب دھیان کم ہوتا ہے کہ ہم ایک امتحان میں کیسے کتنا اچھا پرفارم کر سکیں گے، اور سب سے بڑھ کر قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن میں پہلے ہی ہار مان جاتے ہیں، جو کہ ہماری کشتی کو اُسی وقت ڈبو دیتی ہے۔۔۔۔ کبھی کسی چیز کو آزمائے بغیر ہار مت مانیں، ہرگز مت مانیں، آزمائش شرط ہے۔ کیونکہ آخر میں یہ کام آپ کے لیے ہی ضروری ہے اور آپ کو ہی یہ انجام دینا ہے۔ اور آپ اپنے ذہن کو اگر تیار رکھیں گے کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں، تو جتنا میں نے اس کے متعلق پڑھا اور دیکھا اس سے پتا چلا کہ آپ کی سوچ ہی آپ کی ستر فیصد جیت ثابت ہوتی ہے۔۔۔۔ ڈانواڈول سوچ رکھنے سے محض انسان بیچ کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے اور زیادہ تر اسکا جھکاؤ ناکامی کی جانب رہتا ہے۔۔۔

 

خیر بات پھر کہاں سے کہاں چل پڑی، بات ہو رہی تھی کہ آپ اپنا وقت کہاں صرف کرتے ہیں، دیکھا جائے تو میں خود ذاتی طور پر زندگی کے 6 سال تقریباً اُوپر بیان کیے گئے تمام کام خوش اسلوبی سے انجام دینے سے قاصر رہا۔ اس سے قبل میں ایک کامیاب سٹوڈنٹ گردانا جاتا تھا، لیکن پھر درمیان میں یہ 6 سال میں نے دوسروں کی زندگی اور دوسروں کی سوچوں کو خود پر مسلط کر کے گزار دیے، خیر شکر ہے کہ مجھے زیادہ نقصان نہیں اٹھانا پڑا، اللہ کے کرم سے میں سنبھلا اور اب کم از کم میں کچھ اچھا کرنے کی جانب گامزن ہوں، میں اب اپنا وقت لغویات سے ہٹا کر اپنی کامیابی کے لیے زیادہ صرف کرتا ہوں، بیچ میں کبھی کبھار کوتاہی کر بھی دوں تب بھی چونکہ ذہنی طور پر تیار رہتا ہوں تو اتنی فکر نہیں رہتی کہ کوئی کیا سوچے گا یا سمجھے گا۔۔۔ کیونکہ آخر میں، میں نے ہی اپنی زندگی کا جواب دہ ہونا ہے اور میں ہی اپنی زندگی کا معمار ہوں، جب یہ سوچ آپ کی رہبر بنتی ہے تب آپ کامیابی کی کُنجی پانے کے قریب تر ہو جاتے ہیں۔

 

اصل میں آپ اپنی زندگی کہاں صرف کرنا چاہتے ہیں اور کس سوچ کے تحت جینا چاہتے ہیں، یہ آپ کا اپنا اختیار ہے، لیکن ہم دوسروں کی سوچ میں جی کر، دوسروں کے رنگ میں رنگ کر، دوسروں کے لالچ اور دوسروں کی باتوں کو نا چاہتے ہوئے بھی اپنا کر اپنا آپ کھو رہے ہوتے ہیں، اور بسترِ مرگ پر خیال آتا ہے کہ یار مجھے اپنی زندگی اپنی سوچ کے مطابق جینی چاہیے تھی، یا مجھے وہ کام انجام دینے چاہیے تھے جو نا صرف میرے بلکہ دیگر انسانوں کی بھلائی کے لیے بھی کارآمد ہوتے، لیکن چونکہ آجکل دیکھا جائے تو پیسہ انتہائی ضروری ہو چکا ہے اور ہم چونکہ لالچی ہیں اور دوسروں کی آسائشوں سے بھری زندگی دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ فلاں گاڑی میرے پاس آ جائے یا فلاں کوٹھی مل جائے تب سوچیں گے کہ اب زندگی میں کیا کرنا ہے، اور تب ہی بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے، ہم نہیں سوچتے،کیونکہ یہ بہت تلخ ہے، کہ دو وقت کی روٹی کمانا اہم ہے، باقی کام تو لغویات میں آتے ہیں، اور ان کا آپ کی زندگی پر کوئی خاص اثر نہیں، انسان کی اصل زندگی تو وہی ہے جب آپ اصل زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، پیسہ سب کچھ نہیں، لیکن چونکہ پیسہ کو سب کچھ تصور کر لیا گیا ہے، تو ہم دوسروں کی زندگیاں جینے پر اپنے آپ کو مجبور کر رہے ہیں، لیکن یہ مجبوری آپ کے اپنے ہاتھوں میں قید ہے، آپ آسانی سے اس جال سے آذاد ہو سکتے ہیں۔ اور اپنی زندگی کو اپنی من چاہی ڈائریکشن کی جانب موڑ سکتے ہیں، اگر آپ چاہیں تو آج ہی وہ غریب بچوں کا سکول کھول سکتے ہیں جس سے آپ نا صرف تعلیم کو عام کریں گے بلکہ کئی ذہنوں کو سوچ کی روشنی یا صلاحیت کو نکھارنے میں کردار ادا کریں، لیکن چونکہ خواہشات غالب ہیں اور امیدیں ایسی جوڑ دی گئی ہیں کہ پیسہ ہی پہلی خواہش قرار دیا جاتا ہے، تو یہ حقیقت پر مبنی کام محض باتوں تک ہی محدود رہ گئے ہیں، اصل زندگی کی حقیقت اور وقت کی اہمیت شاید کبھی صحیح طریقے سے رائج نا ہو پائے۔۔۔لیکن آپ ایک کوشش کر کے دیکھ تو سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

اس کے اُوپر پڑھنے کے لیے آپ مشہور رومن فلسفی سینیکا کی لکھی گئی کتاب پڑھ سکتے ہیں جو کہ اس نے انسانی زندگی میں وقت کی اہمیت اور وقت کے صرف کرنے کے طریقوں پر لکھی ہے، یہ کتاب ایک لمبے مضمون ککے طور پر لکھی گئی ہے اور آسانی سے انٹرنیٹ پر بھی پی ڈی ایف فارمیٹ میں مل جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتاب کا نام ہے

“Seneca – On the Shortness of Life”

اپنی پروا خود کریں

آج سوچا اس سُونے سُونے بلاگ پر کوئی رنگ بکھیرے جائیں، پر میں  رہا کچھ معاملوں میں سدا کا سُست، اُوپر سے گردشِ ایام اور اپنی زندگی کو سیٹ کرنے کے چکروں نے مزید کھسکا ڈالا۔

خیر بات ہو رہی تھی کہ اپنی پروا خود کریں، جی بلکل کوئی آپ کی ذات کی اتنی پروا یا خیر خواہ نہیں ہو سکتا جتنا آپ خود اپنا خیرخواہ بن سکتے ہیں، اصل میں بات کچھ یوں ہے کہ ہم جب کسی سے امیدیں باندھ لیتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ فلاں بندہ ہمارا یہ کام کروا دے گا یا فلاں شخص اتنا مخلص ہے تو کچھ نا کچھ کام آ جائے گا۔۔۔۔۔ یہ بات اکثر ٹھیک بھی ثابت ہوتی ہے اکثر غلط بھی۔۔۔ اب اس بات کے بھی کئی پہلو آ جاتے ہیں کہ آیا ان میں سے کونسا صحیح ہے اور کونسا غلط، کیا مجبوری آڑے آئی ہے یا وہ محظ لفاظی تھی جو ٹُھس ہو گئی۔۔۔

خیر جو بھی ہو آخر میں آپ کی امید ٹوٹ جاتی ہے، یا آپ سمجھ لیتے ہیں کہ کسی کو کوئی پروا نہیں، تو حضرت آپ کو اپنی پروا کرنی چاہیے تھی۔۔۔۔ کچھ لوگ پروا کرنے کو خود غرضی بھی سمجھ لیتے ہیں، تو ایسی خود غرضی درست ہے کہ جس سے آپ کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑ جائیں یا کسی کا کسی کام میں محتاج ہونا پڑ جائے۔۔۔ کچھ لوگ پروا کو یوں بھی غلط لے لیتے ہیں کہ اسے میری پروا نہیں یا اسے میرا خیال نہیں، ارے بھائی کیونکر ہو گا۔۔۔ وہ اپنے خیالات کو جگہ دے یا آپ کی پروا ہر دم پالے۔۔۔۔ لیکن خیر یہ بھی بہت گہرا ٹاپک ہے کہ آیا کسی کو کسی کی کتنی پروا ہوتی ہے۔۔۔ پروا تو ہوتی ہے، لیکن اتنی نہیں جتنی آپ ایکسپیکٹ کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔

کوئی آپ کی زندگی خود گزارنے کے لیے نہیں بنا، بلکہ اس کو اپنی زندگی گزارنے کا ذمہ ملا ہے، لیکن پھر بھی اگر کوئی آپ کے لیے سوچتا ہے اور مخلص ہے، اس کی قدر کیجیے، اور اس کی قدر کی لاج رکھتے ہوئے، اُس کا بھی بھلا سوچیے اور اپنی پروا بھی خود کیجیے۔۔۔۔۔

جانے کب مل جائے

بہت کچھ اندر اُبل رہا ہو جیسے، یوں گھٹن سی محسوس ہو رہی ہے، جیسے کئی الفاظ باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہوں۔۔۔۔ کہہ رہے ہوں کہ جناب ہٹ جاؤ، آج تو ہم باہر نکل کر طوفان برپا کردیں گے، تباہی والا طوفان نہیں، ایک انجانا طوفان کہ جس سے شاید کسی کو راحت ملے، کسی کو ملے نا ملے، ہمیں ضرور مل
جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت ذہن پر اور تو کچھ نہیں، پر اوپر اوپر یوں لگ رہا ہے جیسے محبت دل کے سمندر کی سطح پر آ کر، سورج کی روشنی میں، لہروں کے سنگ آنکھیں موندے چلتی جا رہی ہو۔۔۔۔۔ جیسے اسے کسی کی پرواہ نہیں، وقت کی قید سے آذاد، شاید اپنا آدھا حصہ تلاش کر رہی ہو جو اسے مکمل کر دے۔۔۔۔۔۔ پر ابھی تو سفر باقی ہے، نا جانے کتنے حصے ملیں گے، جو اس کو ایک پزل کی طرح مکمل کرنے کی کوشش کریں گے پر پزل کا مکمل پیس تو وقت ہی بتائے گا کہ کب کیسے ہاتھ لگ جائے، شاید یہ پیس بوتل میں تیرتا ہوا، پانی کی لہروں کے سنگ اس کے گمان سے بھی پرے اس سے آ ٹکرائے اور کہے کھولو اور مجھے اپنے ساتھ جوڑ لو۔۔۔۔۔۔ یا شاید طوفان کے سنگ، سخت بارش میں، جب سمندر بپھرا ہوا ہوتا ہے، تبھی اچانک یہ اس کو ایک تختے کی صورت میں مل جائے، کہ مجھے پکڑ لو،اور شدید طوفان کی رات گزار کر سکون کی صبح تک میرے سنگ رہو۔۔۔

یا شاید اسے سمندر پار جزیرے کی صورت میں اسے اسکا دوسرا حصہ مل جائے اور یہ وہیں اپنی باقی زندگی گزارے۔۔۔۔۔ یہ کہنا تو قبل از وقت ہی ہے۔۔۔۔۔ پر دیکھا جائے تو ممکن ہو ہی جاتا ہے سب وقت کی دیوی جانے کب کس موڑ پر مہرباں ہو جائے، کچھ بھی ہو اچانک سے زندگی بھی مل سکتی ہے موت بھی مل سکتی ہے۔۔۔۔۔ یا یوں کہیں کہ موت ہی اُس پزل کا آخری حصہ ہو، جو اسے مکمل کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید

Every idea has struck in mind of person before you.

جی آپ نے صحیح پڑھا۔۔۔ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ واہ ہم نے کیا راہ نکالی، لیکن حقیقت یہ ہے ہر خیال پہلے ہی کسی ذہن میں سوچا جا چکا ہوتا ہے۔۔۔ اب وہ اُس سوچنے والے پر منحصر کرتا ہے کہ آیا وہ اس خیال کو حقیقت کا روپ دے یا نہیں۔۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اور کیسے، اس کی وجہ تو مجھے بھی معلوم نہیں، پر میں نے یہ چیز کافی مرتبہ محسوس کی کہ واقعی اس چیز میں کچھ نا کچھ صداقت ضرور ہے۔۔۔ اکثر اوقات میرے ذہن کی باتیں پہلے ہی کسی زیادہ ذہین آدمی کی سوچ سے ہو کر گزری ہوں گی، دیکھا جائے تو ہمارا ذہن ابھی ترقی کے مدارج طے کر رہا ہوتا ہے، تو سب سے ذہین آدمی کی سوچ میں شاید وہ بات ہو کر گزر بھی گئی ہوتی ہے یا پھر استعمال ہو گئی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ جس طرح آئن سٹائن نے کہا تھا، مجھے اب یاد نہیں میں نے کہاں پڑھا شاید اُس کی بائیو گرافی تھی، کہ ہر خیال پہلے سوچا جا چکا ہوتا، اُس خیال کو استعمال کرنا اور اُس خیال میں جدت لانا حقیقی “جینیس” کی پہچان ہے۔۔۔۔۔۔

ذہن کی زنجیریں توڑیں

آج پارک میں بیٹھے، تیز ہوا کے جھونکوں میں گرمی کے اثر کو دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔ کیا خوب سما تھا، شام کا وقت، ہوا کی تال پر جھومتے درخت ایک دوسرے کو گلے مل کر خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔ اسی منظر کو دیکھتے ہوئے میرے چہرے پر مُسکراہٹ تھی کہ تھم نہیں رہی تھی، لبوں پر اپنی پسند کے گیت گنگنا رہا تھا، اور درختوں کو جھومتے دیکھ رہا تھا۔۔۔ سامنے بچے کھیل رہے تھے اور میں اس تمام منظر کے ساتھ ساتھ انجانی سوچوں میں گم بھی تھا۔۔۔

یک دم ایک خیال ذہن میں آیا، دماغ نے کہا کہ یہ سب منظر کچھ دیر کے لیے ذہن سے ہٹا دو، جیسے سامنے کچھ بھی موجود نا ہو۔ بس ایک تُم ہو اور آس پاس صرف کھلا میدان ہو جو ہر شے ہر چیز سے پاک ہو، یعنی جیسے خلاء کا منظر۔۔۔۔ اب مثال کے طور پر آپ ایک کام ہی کر سکتے ہوں یعنی آپ کا ذہن بھی خلاء کی مانند بلکل خالی ہو گیا ہو اور پھر یک دم آپ کو کچھ کرنے کا خیال آئے جیسا کہ فٹ بال کھیلنے کا، یعنی جیسا کہ آپ اتنی بڑی خلاء میں فٹ بال کھیلنا چاہتے ہوں، تو آپ خوب مزے سے کھیل سکیں گے، کوئی ہچکچاہٹ نہیں، کوئی ڈر نہیں بس مگن ہوں گے اپنے کھیل کے اندر۔۔۔ یعنی اپنے ذہن کو بھی ہر خیال ہر بات سے پاک کر کے دیکھیں اسی منظر میں رہتے ہوئے، آپ کے سامنے فٹ بال ہے اور آپ بس فٹ بال ہی کھیلنا چاہ رہے ہیں، کوئی اور خیال آپ کے ذہن میں گزرے گا ہی نہیں، یعنی بس آپ ایک روبوٹ کی طرح صرف پروگرام ہو گئے ہوں بس فٹ بال کھیلنے کے لیے۔۔۔۔۔۔

میرے ذہن نے یہ جو ساری منظر کشی کی اور امیجینشین کی اس سے مجھے ایک بہت بڑا سبق ملا، سبق یہ تھا کہ جناب آپ صرف اپنے ذہن میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں، اپنے ذہن سے باہر نکلیں، جب آپ کوئی کام کرنا چاہیں تو ہزاروں سوچیں پہلے آ جائیں گی کہ ایسا کرو گے تو ویسا ہو گا، لوگ کیا کہیں گے، تُم نہیں کر سکتے، تُم اسے کیسے انجام دو گے ، یہ تو پہاڑ کی مانند ہے، الجھن۔۔۔۔۔ نیز ہر طرح کی باتیں آپ کو اُس کام کو انجام دینے سے پہلے ہی روک دیں گی۔۔۔ پر اگر آپ جو کرنا چاہیں، جس کام کو کرنے کے لیے آپ کا دل مچل رہا ہو، تو اُسی فٹ بال کھیلنے والے روبوٹ کی طرح اپنے آپ کو بھی بس یہی کہیں کہ میں نے یہ کرنا ہے، آس پاس کی سب چیزوں کو اپنی آنکھوں سے اوجھل کر دیں، یعنی توجہ ہی نا دیں، بس آپ ہوں اور آپ کا من چاہا کام ہو۔ میں سو فیصد یقین سے کہتا ہوں کہ آپ وہ کام کریں گے بھی اور اُس میں کامیاب بھی ہوں گے اور آپ کو مزہ بھی آ ئے گا۔۔۔۔۔۔

اصل بات ہی یہی ہے کہ کوئی نئی چیز کرنے سے پہلے یا اپنی من چاہی چیز کرنے سے پہلے ہم اپنی ذہنی غلامی کو سامنے لے آتے ہیں، اور غلامی بھی اپنی پیدا کردہ، بے وجہ خوف، ڈر ، بے وجہ منفی سوچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سب کو آپ پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔۔
ہاں آپ کرسکتے ہیں!!!

رنگ باز کمپنی

عرصہ ہی ہو گیا بلاگ بیچارا سُونا پڑا تھا، جیسے چڑیوں کا گھونسلہ، جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو چڑیاں اپنا گھونسلہ چھوڑ کر بھاگ نکلتی ہیں کہ بچے بڑے ہو گئے اب اپنا گھر بسائیں گے۔۔۔ ادھر اُدھر کی باتیں چھوڑیں، خیر پچھلے بلاگ اور اس باری کے درمیان کئی اہم واقعات ہماری زندگی میں رُونما ہوئے۔۔۔ اول الذکر تو آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں تاکہ آپ بھی ہوشیار رہیں اور اس دنیا کی رنگ بازی اور لالچ کے کھیل سے لطف اندوز بھی ہوں اور بچ کر بھی رہیں، واقعی لالچ بری بلا ہے۔۔۔۔۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم کچھ کام کے سلسلے میں فیصل آباد گئے۔۔۔ وہاں فارغ وقت میں ہمیں ہمارے ایک دوست نے آن پکڑا، جناب لاہور میں مٹیریل انجینیر ہیں اور بڑے عرصہ بعد مل کر ہم بہت خوش ہوئے، ہم نے دریافت کیا کہ یار ادھر خیریت سے؟ کہنے لگے کہ بس یار ادھر اب تعمیرات کا کام شروع ہے تو بس اُسی سلسلے میں آیا ہوا ہوں، خیر ہم نے بات پر توقف کیا اور دیگر گپ شپ میں مصروف ہو گئے، ہمارے یار کے لبوں پر چند اہم باتیں تھیں جو وہ کہنا چاہ رہے تھے لیکن شاید مناسب لفظ نہیں مل پا رہے تھے، تھوڑی دیر بعد بول ہی پڑے، یار! بات یہ ہے کہ میں نے لاہور اپنی نوکری چھوڑ دی ہے، میں حیران ہوا اور سوچا کہ یار اتنا اچھا کما رہا تھا نا جانے ایسا کیا ہو گیا، خیر ہم نے اُنکی بات کی جانب توجہ رکھی، کہنے لگے، ہوا کچھ یوں کہ ہمیں ہمارے شہر بہاولپور کے بچپن کے یار نے یہاں ایک اور کمپنی میں بلایا ہے، تُم اُس کمپنی کا کل کا پروگرام دیکھ لینا اگر فارغ ہوئے، ہم چونکہ دو دن فارغ تھے، تو حامی بھر لی اور کہہ دیا کہ وقتِ مقررہ پر پلازہ پہنچ جائیں گے، فیصل آباد ڈی چوک کے نزدیک ایک پلازہ اُس کمپنی نے کرائے پر لیا ہوا تھا جہاں اُس نے اپنی تشہیری مہم چلانا تھی۔ خیر ہم اگلے دن اُسی جگہ پہنچ گئے، وہاں تو لوگوں کا وسیع ہجوم تھا، پٹھان، بلوچ، مطلب کہ سندھ سے بھی کافی لوگ تھے، میں بڑا متاثر ہوا کہ یار بڑی نامی گرامی کمپنی لگتی ہے۔۔۔ ہم پلازے کے حال میں پہنچے اور ایک جگہ خالی تھی وہاں بیٹھ گئے، حال میں تقریباً دو سو بندہ تو ہوگا ہی، جیسا کہ آپ کو بتایا کہ سارے پاکستان میں سے لوگ تھے، ہمیں بڑا تجسس ہوا اور اسی اشتیاق میں رہتے ہوئے اُس دن کی نشست کے مقرر آن پہنچے جہنوں نے کمپنی کے بارے میں ہمیں بتانا تھا، چند ادھر اُدھر کی باتوں کے بات وہ صاحب کام کی بات پر آئے، کہنے لگے یہاں کتنے لوگ پڑھے لکھے ہیں، مجھ سمیت بارہ لوگ ہوں گے شاید جنہوں نے ہاتھ کھڑے کیے کہ ہم پڑھے لکھے افراد میں شامل ہیں، یعنی باقی سارا مجمع تعلیم سے بے بہرہ تھا، ہمارے کان کھڑے ہو گئے کہ یار یا یہ کمپنی اب کوئی کھیل کھیلے گی یا بڑی اچھی کمپنی ہے جو سب کو روزگار کے مواقع دینے لگی ہے۔۔۔ اس سب کے بعد جب پریزنٹر صاحب نے اپنی جیب سے ایک مقناطیس نُما کنگھا نکالا اور سر پر پھیرنے لگ گئے کہ اس سے آپ کی ساری دردیں، بلڈ پریشر نیز ہر مرض ٹھیک ہو جائے گا بس آپ کو یہ کرنا ہے کہ یہ ہم سے خریدیں اور آگے بیچیں۔۔۔۔۔ میری ہنسی نہیں رکی، زور کا قہقہا لگا۔۔۔ سارا مجمع میری جانب متوجہ ہوا۔۔۔ میں نے مقرر سے پوچھا کہ جناب سب باتیں بجا آپکی، کیا آپ کا یہ کنگھا سیمپل کے طور پر میں لے جاؤں، کہنے لگے کہ آپ ہوشیار نا بنیں زیادہ، یہ پیسوں سے ہی ملے گا، اُسکے بعد تو ہم نے اُنکی ہر بات میں وہ درگت بنائی کہ یاد رکھیں گے، اس پروگرام کے بعد میں فوراً دوست کو ملا اور اُس سے پوچھا کہ یار تُم پاگل تو نہیں لگتے، عقل گھاس چرنے گئی تھی؟؟؟ کہنے لگا ایسی بات نہیں بڑا پیسہ ہے اس میں، میں نے کہا کہ ٹھہرو تمہارا پیسہ، اُس جناب نے ایک لاکھ بیس ہزار اس کمپنی پر خرچ کر دیا تھا، اُسکا بھائی ڈرئیور تھا جسکی رقم بھی دوست صاحب نے یہاں ڈبو دی، خیر میری باتیں اب انہوں نے کہاں سننا تھیں، میں نے کہا کہ یار نا میں نے مارکیٹنگ پڑھی نا تو نے، آجاؤ کسی یونیورسٹی میں جا کر مارکیٹنگ کے پروفیسر کو پکڑیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو، ہم ورچوئل یونیورسٹی میں جا کر ایک ایم بے اے کے پروفیسر سے ملے اور سارا ماجرا بیان کیا، محترم پروفیسر پہلے تو ہم پر خوب ہنسے کے یار پڑھے لکھے ہو کر بھی یہاں پھنس گئے؟ میں نے مُسکراتی نظروں سے اپنے دوست صاحب کی جانب دیکھا جو کہ فُل شرمندہ تھے، پروفیسر صاحب کہنے لگے کہ یار بات یہ ہے کہ اگر آپ یہی ایک لاکھ بیس ہزار ایک بینک میں جمع کروائیں، سُود وغیرہ الگ بات، سمجھانے کی غرض سے بتا رہا ہوں کہ آپکو فکسڈ پرافٹ سے بھی اتنا فائدہ ہو جائے گا جتنا آپ کمپنی سے لینا چاہ رہے ہیں، تو آپ کیوں پھنس رہے ہو بھیا ان بکھیڑوں میں، ابھی تمام عمر پڑی ہے، جب پیسہ ٹھیک ٹھاک کما لینا پھر بے شک اجاڑتے رہنا۔۔۔ خیر کمرے میں ایک اور پروفیسر صاحب بھی آئے جو اس کمپنی سے ڈسے جا چکے تھے، انہوں نے تو خوب گالیاں دیں اور کہنے لگے جو بندہ بھی ملے اس کمپنی کا میں تو اُسے روڈ پہ لٹا دوں گا۔ بات یہ تھی کہ ایک ہیڈ کو نیچے چار بندے رکھنے ہوں گے جنکو ذریعے مزکورہ چیز بیچنی ہوگی، نقصان یہ ہوتا ہے کہ اگر ان چاروں میں سے ایک بھی چیز نا بیچ پایا تو پورا سرکل ٹوٹ جائے گا لیکن ہیڈ کے پیسے نہیں ڈوبیں گے، ہے نا چالباز کام۔۔۔ اور اُنکی پروڈکٹس بھی ایسی لگتی ہیں جن کا چند عرصہ فائدہ ہوگا بھی جیسا کہ ٹوتھ پیسٹ وغیرہ، ٹوتھ پیسٹ سے یاد آیا کہ مقرر صاحب یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اس ٹوتھ پیسٹ کو کھانے سے آپکو بواسیر کا علاج بھی ہو جائے گا، اور تمام مجمع ہاں جی صحیح کہہ رہے ہیں آپ کے نعروں سے گونج رہا تھا، میں اپنے سر پر ہاتھ مار مار کر ہنس رہا تھا۔۔۔ خیر پروڈکٹس شاید تھوڑا عرصہ کارآمد ہوں بھی لیکن آگے جا کر مستقل استعمال سے اس کے نقصان ضرور ہوں گے، ویسے بھی بیماری کا علاج صحیح کروایا جایا ایک بار ہی بجائے ایسے ٹوٹکے کرنے سے۔۔۔۔ ان سب باتوں کے بعد دوست کو تھوڑا ہوش آیا اور پھر ندامت کے مارے جناب ساری رات سو نہیں پائے، اگلے دن آئے اور کہنے لگے کہ یار اب کیا کریں، میں نے کہا اب اللہ مالک ہے، اب ایسا کرو کہ پہلے تو دوبارہ نوکری تلاش کرو کہیں اور ہمیشہ اپنا ایک روپیہ بھی کسی کو دینے سے پہلے پوری تسلی کر لو کہ کس کو دے رہو اور کیوں دے رہے ہو، وہ جناب شرمندگی سے میری ہر بات پر سر ہلاتے رہے اور دہراتے رہے کہ یار لالچ بہت بری بلا ہے میں خود تو پھنسا ہی اپنے بھائی کو بھی لٹوا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ کپنی کا نام ہے
TIENS INTERNATIONAL
جو کہ آجکل فیصل آباد میں خوب سر گرم ہے، کمپنی کا مالک کوئی چائنہ کا بندہ ہے، میں اس بارے میں زیادہ تفصیل نہیں بتاؤں گا پر یہ بتاؤں گا کہ یہ کمپنی جس مارکیٹنگ پر سسٹم پر کام کرتی ہے وہ کہلاتا ہے
Multilevel marketing, or pyramid scheme
حکومتِ پاکستان نے انتباہ کر رکھا کہ ہے کہ ایسی ہر قسم کی کمپنی جو اس کے تحت کام کر رہی ہو اُس سے بچیں، میں نیچے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی ویب سائٹ کا لنک بھی دے رہا ہوں جہاں آپ پڑھ لیں کہ اس طرح کی کمپنیوں سے ہوشیار باش رہنے کا کہا گیا ہے۔۔ بات بہت لمبی ہو گئی۔۔۔۔۔ نتیجہ یہی کہ اللہ نے آپ کو عقل دی ہے اسی استعمال کر لیا کریں بچت ہو جاتی ہے!!!! اور خرچہ بھی نہیں ہوتا۔۔۔ خیر یہ بتانا بھول گیا کہ سٹیٹ بنک کے نچلے لنک پر جا کر آپ کے پاس وارننگ سیکشن کھلے گا،جس میں آپ نے
June 2009
کی پبلک وارننگ والا لنک کھولنا ہے اور وہاں ساری تفصیل غور سے پڑھنی ہے اور ہو سکے یہ بات آگے بھی پہنچانی ہے۔۔۔
http://www.sbp.org.pk/warnings/

تاریخ اور محمد بن قاسم

تاریخ بڑی گھمبیر ہے، اس میں کئی تاریک کونے بھی ہیں اور کئی روشن مینار۔ ایک تاریخ دان جب تاریخ لکھتا ہے تو کوشش یہی ہوتی ہے کہ کم از کم اُس کا قلم سچ ہی لکھے اور پھیلائے تاکہ اُس کا نام بھی یاد رکھا جائے، لیکن تاریخ دان بھی چونکہ انسان ہوتے ہیں اس لیے کچھ حد تک لفظوں کے چکر میں اپنی پسند نا پسند بھی شامل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح برسوں کی تاریخ میں کبھی کبھار جھوٹے واقعات کو بھی جگہ مل جاتی ہے، یہ جگہ مُستند تاریخ دان نہیں، بلکہ اُن کے پڑھنے والوں یا کم علمی کی وجہ سے اپنی بات آخری سمجھنے والوں کی حرکت کی وجہ سے عُرفِ عام میں مشہور ہو جاتی ہے، اور پھر چونکہ انسان سُست واقعہ ہوا ہے۔ وہ بھی اکثر من و عن اُس بات کو مان لیتے ہیں اور پھر یہ باتیں سُنے سُنائے واقعات کی بجائے کبھی کبھار بڑے بڑے گھناؤنے راستوں کی جانب پُوری قوم کو دھکیل دیتے ہیں۔ بحیثیت مُسلمان قرآن بھی ہمیں حکم دیتا ہے کہ کسی بھی بات کو اندھوں بہروں کی طرح مت مانو بلکہ سوچ بچار سے کام لو۔ کم وقت کی وجہ سے پوری آیت من و عن نہیں لکھ پایا اور اُس کا سیاق و سباق بیان کیا۔۔۔۔۔ یعنی کہ اگر انسان تھوڑی سی سوچ بچار اور پھر اُس سوچ بچار کو پرکھنے کے لیے تھوڑی کوشش کرے تو اُس کو تاریخ پرکھنے میں کوئی مُشکل نہیں آتی کہ آیا یہ سچ ہے یا چند من گھڑت واقعات جو زبان در زبان اس قدر تبدیل ہو گئے کہ بات تھی کہ فلاں بندے نے کوا مارا۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کئی سال بعد وہ بات کئی زبانوں کے ہاتھوں مار کھا کر آگے بڑھی تو پتا چلا کہ ایک دیو نے بیچارے کوا نُما آدمی کو مارڈالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس مثال کا مقصد یہ تھا کہ کس طرح آسانی سے کسی چیز کی تحریف مُمکن ہے۔۔۔۔ آج ایک مشہور اخبار جس کا لنک نیچے درج ہے، نے سندھ کے مشہور عرب فاتح محمد بن قاسم کا ذکر چھیڑا۔۔۔ اُس میں ایک “سندھ ادمی بورڈ” کی شائع کردہ کتاب سے ایک اقتباس شامل کی گئی جس کا موضع تھا محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد کے بعد۔۔۔۔ کتاب کا نام ہے “چچنامہ”۔۔۔ اس کے صفح نمبر 242 اور 243 پر ایک واقعہ درج ہے کہ( راجہ داہر کے مرنے کے بعد اُسکی دو بیٹیوں کو جنگی قیدی بنا لیا گیا یا تحویل میں لے لیا گیا۔۔۔۔ محمد بن قاسم نے اُنہیں دمشق روانہ کر دیا۔ کچھ دنوں بعد خلیفہ اسلام نے دونوں خواتین کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔۔۔ راجہ داہر کی بڑی بیٹی کا نام “سُوریادیوی” اور جبکہ چھوٹی بیٹی کا نام “پِرمادیوی” تھا۔۔۔۔ خلیفہ ولید بن عبدالمالک بڑی بیٹی “سُوریادیوی” کی زُلفوں کے اسیر ہو گئے۔۔۔ اُنہوں نے چھوٹی بیٹی “پِرما دیوی” کو دربار سے واپس لے جانے کا حکم دیا۔۔۔۔ خلیفہ نے سُوریادیوی کو اپنی جانب کھینچا اور قُربت حاصل کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔ سُوریادیوی جو کہ خلیفہ کے سامنے با ادب کھڑی تھی فوراً آگے بڑھی اور بولی کہ “خلیفہ کا اقبال بُلند ہو، میں ایک کنیز ٹھہری ، اور بادشاہ کے حرم کے لیے بلکل موزوں نہیں، کیونکہ محمد بن قاسم نے ہم بہنوں کو تین دن اپنے پاس رکھا اور بعد میں دمشق آپکی طرف روانہ کر دیا۔۔۔ شاید آپ لوگوں کی یہی روایت ٹھہری، لیکن کیا آپ اس قسم کی بے حُرمتی کی اجازت دیں گے؟”۔۔۔۔ یہ سُننے کے بعد خلیفہ قُربت اور غصہ کی آس لیے لال سُرخ ہو گئے۔۔۔۔ سُوریا دیوی کی خوبصورتی اور بن قاسم کے ہاتھوں سُوریادیوی کی پاکیزگی ختم کرنے کی بدولت خلیفہ حسد کا شکار ہو گئے۔ خلیفہ نے فوراً کاغذ، قلم اور سیاہی لانے کا حکم دیا اور اپنے ہاتھوں سے ایک حکم نامہ جاری کیا۔۔۔ “محمد بن قاسم جہاں کہیں بھی ہو اپنے آپ کو خام چمڑے کے اندر لپیٹ کر خلیفہ کی کُرسی پر واپس آئے۔۔” محمد بن قاسم کے پاس “ادھےپُور” کے اندر موجودگی کے دوران خلیفہ کا حکم نامہ پہنچا۔۔۔ اسے پڑھنے کے فوراً بعد بن قاسم نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ اسے ایک خام چمڑے میں لپیٹ کر بند کر دیں اور اسے صندوق میں بند کر کے دمشق بھیج دیں۔۔۔۔۔۔۔ دارالخلافہ کی جانب سفر کے دوران، سندھ کے فاتح اور کچھ لوگوں کے سامنے ایک قاتل۔۔۔۔ محمد بن قاسم نے اپنی آخری سانسیں لیں اور اُنکی جان اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی جس کے نام پر اُس نے سندھ پر حملہ کیا تھا۔۔۔۔ جب محمد بن قاسم کا صندوق دمشق خلیفہ کے دربار میں پہنچا تو خلیفہ نے راجہ داہر کی دونوں بیٹیوں کو دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ خلیفہ کے حکم کی بجاآوری کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔ صندوق دیکھنے کے بعد خلیفہ کی ایک بیٹی آگے بڑھی اور بولی ” حقیقت تو یہ ہے کہ بن قاسم ہمارے لیے ایک بیٹے اور بھائی کی طرح تھا، اُسنے ہمیں قطعاً ہاتھ نہیں لگایا۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آپکی کنیزوں کو۔۔۔ اور ہماری حُرمت بلکل محفوظ رہی۔۔۔۔ پر محمد بن قاسم نے سندھ اورہندوستان کو جو نقصان پہنچایا، ہمارے باپ داداؤں کی سرزمین اور سلطنت کو تباہ کیا، اور ہمیں رانیوں کی جگہ سے ہٹا کر کنیزوں میں بدل ڈالا۔۔۔۔۔۔ ہم اُسکی تباہی اور بربادی دیکھنا چاہتی تھیں، اس لیے آپ کے سامنے معاملے کو غلط انداز میں پیش کیا، اور خلیفہ سے جھوٹ کہا۔۔۔۔۔۔”)۔۔۔۔۔۔۔ یہ واقعہ یہاں اختتام پذیر ہوتا ہے۔۔۔ اب ایک صاحبِ عقل پہلے تو یہی سوچے گا کہ آیا خلیفہ اتنا بیواقوف تھا کہ اُسے اپنے سب سے قابل جرنیل پر اعتماد ہی نا تھا، اور وہ اتنی آسانی سے ان کی باتوں میں آ گیا۔۔۔ اور اگر اسے سچ بھی مان لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ مسلمان اتنے عیش پرست تھے کہ ایک خوبصورت عورت کی خاطر اتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔۔۔ چلو یہ عورتیں عام نہیں تھیں مہارانیاں تھی اور برصغیر میں قدم جمانے کے لیے انکا خلیفہ کے عقد میں آنا سونے کی چابی کے مترادف تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کیا خلیفہ اتنی جلد اپنے دوست محمد بن قاسم سے حسد کرنے لگ پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوالات ذہن میں زور زور سے دستک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جناب پہلے پُوری تاریخ صحیح جانچ پڑتال کر کے دیکھ لو، پھر کسی نتیجہ پر پہنچو۔۔۔۔ نا کہ بس سُن لیا اور من و عن قبول ہے قبول ہے کی رٹ جاری
رکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچو سوچو سوچو، پرکھو اور نتیجہ اخذ کرو۔۔۔۔
لنک جہاں اس کہانی کے متعلق علم ہوا
http://www.dawn.com/news/1098562/muhammad-bin-qasim-predator-or-preacher

الفاظ کا کھیل پارٹ تھری

الفاظ کے جادو سے بچنا ہر کسی کے بس میں نہیں، یہ الفاظ ایسی تاثیر رکھتے ہیں کہ سخت سے سخت دل میں بھی بار بار وار کر کے اکثر ایک چھید یا سوراخ کر دیتے ہیں اور پھر اس سوراخ کے ذریعے اُس کے دل کی راہ پا لیتے ہیں، اور اُسے اپنا غلام یا گرویدہ کر لیتے ہیں۔۔۔ ان الفاظ سے محفوظ رہنے والے بلکل بھی ان سے محفوظ نہیں رہ سکتے، یہ الفاظ سب پر ہی اثر چھوڑ جاتے ہیں، لیکن یہ الفاظ کی جادوگری کے توڑ کا گُر جانتے ہیں، یہ جانتے ہیں کہ کیسے ان الفاظ کی جادوگری، سحر انگیزی سے بچا جا سکتا ہے، یا ان الفاظ سے کیے گئے جادو کا اثر کم کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ ان الفاظ کا اولیں سحر تو انکی مٹھاس ہے، اسکا توڑ جاننے والے جب یہ الفاظ سُنتے ہیں تو جس کی زُباں سے یہ الفاظ ادا ہو رہے ہوتے ہیں اُنکی شیرینی کو یہ لوگ بھانپ لیتے ہیں کہ آیا یہ الفاظ ان کے بھلے کے لیے ہیں یا محض خوشامد کے طور پر ادا کیے جا رہے ہیں۔۔۔ جوں جوں زندگی کی سیڑھی اور کامیابی بڑھتی جاتی ہے، توں توں یہ الفاظ کا کھیل پیچیدہ تر ہوتا جاتا ہے، اور ایک الفاظ کے سحر کو پکڑنے اور بچنے والا جانتا ہے کہ کیسے اس پیچیدہ صورتحال میں بھی اچھائی اور برائی کی تمیز کی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ کی کڑواہٹ بھی کچھ کم زہریلی نہیں، یہ تیزاب سے کہیں تیز اور دل کو جلا کر رکھ دینے والی ہے۔۔۔ کسی کو مارنے کے لیے چند الفاظ ہی کافی ہیں۔۔۔۔ ان زہریلے لفظوں کا تریاق جاننے والا خوب اپنے دل کے آس پاس خود اعتمادی اور بھلائی کی ڈھال لیے پھرتا ہے، تاکہ جب کبھی ان زہریلے سانپوں سے مقابلہ ہو تو نقصان کا خدشہ کم سے کم ہے کیونکہ انکا اثر اکثر معاملوں میں تمام زندگی کٹتے نہیں کٹتا۔۔۔۔ یہ جان لے کر ہی جان چھوڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ کے بارے میں مزید اگلی قسط میں