جانے کب مل جائے

بہت کچھ اندر اُبل رہا ہو جیسے، یوں گھٹن سی محسوس ہو رہی ہے، جیسے کئی الفاظ باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہوں۔۔۔۔ کہہ رہے ہوں کہ جناب ہٹ جاؤ، آج تو ہم باہر نکل کر طوفان برپا کردیں گے، تباہی والا طوفان نہیں، ایک انجانا طوفان کہ جس سے شاید کسی کو راحت ملے، کسی کو ملے نا ملے، ہمیں ضرور مل
جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت ذہن پر اور تو کچھ نہیں، پر اوپر اوپر یوں لگ رہا ہے جیسے محبت دل کے سمندر کی سطح پر آ کر، سورج کی روشنی میں، لہروں کے سنگ آنکھیں موندے چلتی جا رہی ہو۔۔۔۔۔ جیسے اسے کسی کی پرواہ نہیں، وقت کی قید سے آذاد، شاید اپنا آدھا حصہ تلاش کر رہی ہو جو اسے مکمل کر دے۔۔۔۔۔۔ پر ابھی تو سفر باقی ہے، نا جانے کتنے حصے ملیں گے، جو اس کو ایک پزل کی طرح مکمل کرنے کی کوشش کریں گے پر پزل کا مکمل پیس تو وقت ہی بتائے گا کہ کب کیسے ہاتھ لگ جائے، شاید یہ پیس بوتل میں تیرتا ہوا، پانی کی لہروں کے سنگ اس کے گمان سے بھی پرے اس سے آ ٹکرائے اور کہے کھولو اور مجھے اپنے ساتھ جوڑ لو۔۔۔۔۔۔ یا شاید طوفان کے سنگ، سخت بارش میں، جب سمندر بپھرا ہوا ہوتا ہے، تبھی اچانک یہ اس کو ایک تختے کی صورت میں مل جائے، کہ مجھے پکڑ لو،اور شدید طوفان کی رات گزار کر سکون کی صبح تک میرے سنگ رہو۔۔۔

یا شاید اسے سمندر پار جزیرے کی صورت میں اسے اسکا دوسرا حصہ مل جائے اور یہ وہیں اپنی باقی زندگی گزارے۔۔۔۔۔ یہ کہنا تو قبل از وقت ہی ہے۔۔۔۔۔ پر دیکھا جائے تو ممکن ہو ہی جاتا ہے سب وقت کی دیوی جانے کب کس موڑ پر مہرباں ہو جائے، کچھ بھی ہو اچانک سے زندگی بھی مل سکتی ہے موت بھی مل سکتی ہے۔۔۔۔۔ یا یوں کہیں کہ موت ہی اُس پزل کا آخری حصہ ہو، جو اسے مکمل کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید