سوچوں کی نگری

آج تین سال بعد نا جانے کیوں رات کے اس پہر، ٹھنڈ سے بھوپور جنوری میں کچھ کہنے لکھنے دل سے نکال دینے کا بہت دل کیا۔۔۔۔۔۔ یہ بات نہیں کہ میں انٹرنیٹ سے دور تھا بلکہ دیکھا جائے تو میں نے گزشتہ تین سالوں میں انٹرنیٹ پر ہی کافی وقت گزارا۔۔۔۔ یہ وجہ نہیں کہ میرے پاس دیگر کام کاج نہیں، ایک عدد سرکاری نوکری بھی ہے، ایک عدد بیوی بھی ہے۔۔۔۔ جس کے ناز نخروں میں دن گزر جاتا ہے اور صبح سویرے وہی جاب گھر جاب اور گھر والی روٹین میں تین سال گزار دیے ہیں۔ اب آج بہت شدت سے دل کا غبار کہہ لو، دل کی باتیں کہہ لو، نکالنے کا بہت من کیا۔۔۔ یوں لگا کہ بس الٹی کر دوں، چیخوں، میرے اندر ایسی کیا کشمکش جاری ہے؟؟؟ مجھے کیا چیز چین نہیں لینے دے رہی، کیا یہ ایک چیز ہے یا کئی چیزوں کا مجموعہ ہے، یا کئی سالوں کی جمع ہوئی فرسٹریشن ہے، یا پھر کیا یہ ایک ہی فرسٹریشن ہے یا کئی چھوٹی چھوٹی فرسٹریشنز ہیں۔۔۔۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اس فرسٹریشن کو کیسے پن پوائنٹ کروں۔۔۔۔۔۔ گھر کے کاموں کا بوجھ ہے، ملکی حالات ہیں، غمِ روزگار ہے، مستقبل کی سوچ ہے، کہ کیا ہے؟؟؟  مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنا زیادہ گھماؤ میں پھنستا ہوں اتنا زیادہ گھبرا کر سوچیں کی تہہ میں اترنا مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ سوچیں بھی ایسی کہ اللہ کی پناہ، اتنی گہری اندھیری دنیا، جن میں گھسنے کے لیے بھی مجھے کسی ٹارچ یا کسی چیز کی ضرورت ہے، وہ ٹارچ وہ روشنی وہ چراغ مجھے اللہ  کی طرف سے ہی ملنے کی امید ہے۔۔۔ لیکن کہانی میں ٹوئسٹ یہ ہے کہ جناب اللہ کی حقانیت، اللہ کی ذات کے متعلق بھی میں وسوسوں سوالا ت کے پیچ و خم میں گِھر جاتا ہوں۔۔۔۔۔ چار سال بعد خیال آیا کہ یار یہ کونا بھی خالی پڑا ہے، بیگم کو بھی بتایا کہ کوئی ریڈر تو ہے نہیں، تُم ہی اپنے میاں صاحب کی ہانکیں پڑھو اور واہ واہ یا توبہ توبہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باقی دیکھتے ہیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

About M Zain Ul Abidin

Well i am a person trying to give my words a place in imaginations eutopia or so to speak a place in universe..........................

Leave a comment